پشاور ( غگ رپورٹ ) صوبے کے ممتاز تجزیہ کاروں اور سابق بیوروکریٹس نے افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سالہ دورِ اقتدار کو پاکستان کے لیے خطرناک اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی، القاعدہ اور دیگر گروپوں کی سرپرستی کرتے ہوئے پاکستان کی سیکورٹی صورتحال کو سنگین چیلنجز سے دوچار کیا تاہم افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے متعدد اہم رشتے ہیں اس لیے اگر اسلام آباد چاہے تو ہم ٹی ٹی پی اور اس کے درمیان مصالحت اور ثالثی کی کوشش کرسکتے ہیں۔
سابق سیکرٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے “سنو پختونخوا ایف ایم” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں ایک بار پھر پراکسیز کا سلسلہ چل نکلا ہے اور ٹی ٹی پی ، افغان عبوری حکومت کے پاکستان مخالف رویوں کو ہمیں بعض دیگر عوامل کی طرح اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے بقول صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی سیاسی کشیدگی خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال پر اثر انداز ہورہی ہے کیونکہ اس بدامنی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہو اور ان کے درمیان مضبوط کوآرڈی نیشن قائم ہو ۔ ان کے مطابق افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی جنگ پاکستان منتقل ہوگئی ہے اور خیبرپختونخوا ، بلوچستان اس جنگ سے زیادہ اس لیے متاثر ہیں کہ یہ افغانستان کی سرحد پر واقع صوبے ہیں ۔
ممتاز دفاعی تجزیہ کار سمیرا خان کے بقول پاکستان کے دیگر صوبوں اور اسلام آباد کے متعلقہ حلقوں کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے زمینی حقائق اور چیلنجز کا اس لیے ادراک نہیں ہورہا کہ وہ دہشت گردی کو ان صوبوں کا مقامی مسئلہ قرار دے رہے ہیں ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خیبرپختونخوا کے عوام اور یہاں پر فرائض سرانجام دینے والی سیکورٹی فورسز نے جاری جنگ کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور ان کی قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے صورتحال کا ادراک کیا جائے اور پاکستانی ریاست کو سیاسی کشیدگی اور ڈیجیٹل دہشتگردی کے درپیش مسائل سے نکالا جائے۔
سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق افغانستان کے طالبان اور ان کی حکومت سے پاکستان کے بعض حلقوں کی توقعات درست نہیں تھیں کیونکہ ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ نہ صرف ماضی میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی رہی ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لڑتی بھی رہی ہیں یہ قوتیں اب بھی ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی ہیں۔
پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک کے بقول پاکستان کو سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے تاہم ریاستی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان سیاسی کشیدگی کے باعث وہ ہم آہنگی نظر نہیں آتی جس کی ضرورت ہے ۔ ان کے مطابق یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے اور قومی اتفاق رائے سے اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
خاتون تجزیہ کار فاطمہ نازش کی رائے ہے کہ تجزیہ کاروں کے اس موقف کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا لازمی ہے کہ خطے میں پراکسیز کی نئی صف بندی پاکستان کے لیے نئے چیلنجز اور مسائل پیدا کررہی ہے اور افغانستان کے ساتھ ہمارے معاملات بوجوہ درست انداز میں آگے نہیں بڑھ رہے۔
دوسری جانب افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک حالیہ بات چیت میں کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے قیام اور فروغ کو بہت اہمیت دے رہی ہے کیونکہ ہم پاکستان کے نہ صرف پڑوسی ہیں بلکہ اس کے ساتھ مختلف رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔ ان کے بقول اگر اسلام آباد چاہتا ہے کہ ہم رابطہ کاری اور ثالثی کا کوئی کردار ادا کریں تو افغان عبوری حکومت اور امارات اسلامیہ اس کے لیے تیار ہیں۔