2024 کے دوران 1758 حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں 2945 افراد کو نشانہ بنایا گیا، رپورٹ
اگست کے بعد حملوں میں اضافہ ہوا، ولایت ڈی آئی خان میں 645 حملے کئے گئے
2024 کے دوران جنوبی پنجاب کو بھی 21 حملوں کا نشانہ بنایا گیا، رپورٹ
741 اسنائپر، 362 گوریلا، 219 گھات، 170 گرینیڈ، بم اور 6 خودکش حملے کئے گئے، رپورٹ میں دعویٰ
172 گاڑیوں، 40 عسکری، ریاستی عمارات اور 292 کیمروں کو تباہ کیے گئے، دعوی
پشاور (غگ خصوصی رپورٹ) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ روز سال 2024 کے دوران پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں کرایے گئے اپنے حملوں کی تفصیلات جاری کردی ہیں جس کے مطابق اس برس 1758 حملے کئے گئے جس نتیجے میں 1241 افراد کی اموات اور 1661 کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ جنوری میں 75، فروری میں 65 ، مارچ میں 66 ، اپریل میں 96 ، مئی میں 99 ، جون میں 97 ، جولائی میں 146 ، اگست میں 243 ، ستمبر میں 262 ، اکتوبر میں 220 ، نومبر میں 208 جبکہ دسمبر 2024 کے دوران مختلف نوعیت کے 182 حملے کئے گئے۔
رپورٹ میں حملوں کی نوعیت کی تفصیل
حملوں کی نوعیت اور تعداد کے دعوے کے مطابق اسنائپر حملے 641 ، گوریلا کاروائیاں 362 ، گھات حملے 219 گرینیڈ ، بم دھماکے 170 میزائل حملے 19 ، جوابی حملے 134 جبکہ خودکش حملے 6 شامل ہیں۔
رپورٹ میں اعداد و شمار کی روشنی میں دعویٰ کیا گیا ہے سال 2024 کے دوران کی گئی ان کارروائیوں کے نتیجے میں کل 2945 افراد کو نشانہ بنایا گیا جن میں 1284 افراد یا اہلکاروں کی اموات اور 1661 کے زخمی کرنا شامل ہیں۔
نشانہ بننے والے ادارے
جن اداروں یا شعبوں کو نشانہ بنانے کی تفصیلات مذکورہ رپورٹ میں شامل ہیں ان میں فوج ، پولیس ، ایف سی ، سی ٹی ڈی اور امن کمیٹیوں کے پروگورنمنٹ افراد شامل ہیں۔ ان کے جانی نقصانات کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔
نشانہ بننے والے علاقوں میں ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرست
مذکورہ جاری کردہ رپورٹ میں جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن سرفہرست ہے جبکہ بنوں اور پشاور بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ولایت ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان ڈویژن) کو سال 2024 کے دوران 645 ، بنوں کو 482 ، پشاور کو 308 ، کوہاٹ کو 65 ، کوئٹہ کو 26 ، جنوبی پنجاب کو 21 ، ژوب کو 8 سنٹرل پنجاب کو 5 ، کراچی کو 4 جبکہ گلگت بلتستان کو 4 بار حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ رپورٹ خطرناک صورتحال کی نشاندہی کررہی ہے، ڈاکٹر سیداختر علی شاہ
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ یہ رپورٹ بہت خطرناک صورتحال کی نشاندہی کررہی ہے۔ ایک تو یہ کہ جولائی کے بعد دسمبر کی درمیانی مدت میں حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا اور دوسرا یہ کہ تقریباً 90 فیصد حملے خیبرپختونخوا خصوصاً جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں کرایے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال کے بڑے اسباب یہ ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی اس عرصے میں بوجوہ بہت منظم ہوئی، اس کے پاس جدید ہتھیار آئے اور اس کو سازگار ماحول میسر آیا۔ دوسری بڑی وجہ یہ رہی کہ بہت سی جوابی کارروائیاں فورسز کے مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں جوابی ردعمل کی شکل میں کی گئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خیبرپختونخوا حکومت کی لاتعلقی اور افغانستان کی عبوری حکومت کی مبینہ سرپرستی نے بھی یہ صورت حال پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر اختر علی شاہ کے مطابق اب تو لگ یہ رہا ہے کہ دو طرفہ کارروائیوں میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا کیونکہ جاری جنگ ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور اب تو افغان طالبان اور ان کے حکومتی ادارے بھی کھلے عام اس جنگ میں پاکستان کے خلاف اتر آئے ہیں۔
(2جنوری 2025)