GHAG

مدارس سے متعلق مشاورت کے لیے اہم علماء کا اجلاس

مدارس کے مذہبی  معاملے کو سیاسی نہ بنایا جائے، مولانا راغب

قانون سازی بعض قانونی پیچیدگیوں کے باعث تاخیر سے دوچار ہوئی، عطاء تارڑ

ہمیں کسی  مارچ کی دھمکی نہ دی جائے ورنہ کارکن ہمارے پاس بھی ہیں،مولانا طاہر اشرفی

علماء کو علماء سے لڑانے کی بجائے مشاورت سے قانون سازی کی جائے، مولانا فضل الرحمان

پشاور (غگ رپورٹ) ملک کے مختلف دینی طبقوں، مدارس کے بورڈز اور حکومتی حکام کے درمیان مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر بحث اور سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں اسلام آباد میں علماء، مشایخ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں متعدد حکومتی عہدیداروں کے علاوہ جید علماء کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا راغب نے کہا کہ مدراس سے متعلق امور ایک مذہبی معاملہ ہے اس لیے اس مسئلے کو سیاسی بنانے سے گریز کیا جائے اور علماء، مدارس کو تقسیم کرنے کا رویہ ترک کیا جائے کیونکہ امت اور قوم کو متحد رہنے کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے اس موقع پر کہا کہ تمام معاملات اور اختلافی امور باہمی مشاورت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ درکار قانون سازی میں اس لیے تاخیر ہوئی کہ اس ضمن میں بعض قانونی پیچیدگیاں حائل تھیں جن کو دور کرنے کا عمل جاری ہے ۔ وفاقی وزیر تعلیم نے واضح کردیا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مدارس پر کنٹرول  حاصل کرنا بلکل نہیں ہے اس لیے بعض مذہبی حلقے اس قسم کا تاثر نہ دیں اور حکومت کے ساتھ تعاون کا راستہ اختیار کیا جائے۔

مولانا طاہر اشرفی نے موقف اختیار کیا کہ مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق کسی نئے طریقہ کار کی ضرورت نہیں ہے اور اس کو وزارت تعلیم کے تحت ڈیل کرنے کا فارمولا درست اور مناسب ہے اس ضمن میں تقریباً 18000 مدارس کی رجسٹریشن کی جاچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا رویہ درست نہیں ہے اور کسی مارچ کی دھمکی بھی مناسب نہیں ہے۔ اگر کوئی 10 ہزار کا مجمع اکٹھا کرسکتے ہیں تو ہم تیس چالیس ہزار جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دوسری جانب جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مذکورہ اجلاس یا کانفرنس کی مخالفت کرتے ہوئے پیر کی شام کو کہا کہ یہ علماء کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش تھی اور اس کا مقصد علماء کو علماء کے ساتھ لڑانے کا راستہ ہموار کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ قانون سازی اور طریقہ کار پر گزشتہ کئی سالوں سے مشاورت اور کام جاری ہے مگر بار بار بعض رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس پر ہم نے اپنی تجاویز کی روشنی میں 26 ویں آئینی ترمیم کی تیاری کے دوران اہم نکات شامل کرایے اور اب مہذب طریقے سے اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ سیاسی ، عوامی اور صحافتی حلقوں کی اکثریت نے بھی مدارس کی رجسٹریشن اور مین سٹریمنگ کی حمایت کی ہے۔ اے این پی ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سمیت متعدد دیگر پارٹیوں نے مجوزہ رجسٹریشن ، اصلاحات اور مین سٹریمنگ کو اہم اور لازمی قرار دے دیا ہے۔

اسی طرح صدر مملکت نے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں بھی مدارس سے متعلق جاری بحث اور امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts