عقیل یوسفزئی
اقوام متحدہ کی اس مانیٹرنگ رپورٹ سے پاکستان کے اس موقف اور بیانیہ کی تصدیق ہوئی ہے جس میں یو این نے قرار دیا ہے کہ پاکستان پر مسلسل حملوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے طالبان کے علاوہ القاعدہ کی سرپرستی کے علاوہ ان کا آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ بھی حاصل ہے ۔ ٹیررازم کی مانیٹرنگ کرنے والے اقوام متحدہ کی 15 ویں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے جنگجووں کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ ہزار ہے اور یہ کہ ان کو نہ صرف یہ کہ افغان طالبان ، القاعدہ اور دیگر ہم خیال گروپوں کی جانب سے سپورٹ مل رہی ہے بلکہ ٹی ٹی پی کے کارکنوں کو ننگرہار ، کنڑ ، نورستان اور قندھار میں قائم القاعدہ کے تربیتی کیمپوں میں ٹریننگ بھی دی جارہی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تمام عوامل کے باعث پاکستان پر سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور علاقائی امن کو خطرات لاحق ہیں ۔
اقوام متحدہ کی اس مانیٹرنگ رپورٹ نے پاکستان کے اس موقف کی تصدیق کردی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور یہ کہ اس سپورٹ ہی کے نتیجے میں پاکستان کو بدترین دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے ۔
دوسری جانب اس رپورٹ کے اگلے روز کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود کا ایک تفصیلی پیغام یا بیان دفاعی ماہرین میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانی ریاست کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہے اور یہ کہ اس کی کارروائیاں پاکستان کی پالیسوں کا ردعمل ہیں ۔ ماہرین نے اس پیغام خصوصاً مذاکرات کی خواہش کو مبہم قرار دیتے ہوئے رائے قائم کی ہے کہ موصوف یا تو پاکستان کے مجوزہ” عزم استحکام” سے خوفزدہ ہوگئے ہیں یا ان پر طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے ۔ دوسروں کے علاوہ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی ان کے اس بیان پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ ایکس پر پوسٹ کردہ اپنے موقف میں احسان اللہ احسان نے بلاواسطہ مفتی نور ولی محسود کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق بعض دیگر ایسے اہم افراد اور ٹی ٹی پی کے حامیوں نے بھی اس مبہم بیان کو ایک طرح سے ” سرینڈر” ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ اسی دوران پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی مجوزہ مذاکراتی عمل کو خارج از امکان قرار دیا جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ماضی قریب میں کیے گئے مذاکراتی عمل کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر ہونے والے حملوں میں ان طالبان جنگجووں کا بنیادی کردار ہے جن کو افغانستان اور پاکستان کی جیلوں سے رہائی دلوائی گئی ۔