اقوام متحدہ نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان اور القاعدہ کی سرپرستی اور معاونت حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کی تعداد اور شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ اپنی ایک نئی رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی ٹیک اوور کے بعد نہ صرف یہ کہ پاکستان کی سیکورٹی صورتحال متعدد چیلنجز سے دوچار ہوئی اور اس پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان ، ان کی حکومت اور القاعدہ کی سرپرستی اور معاونت بھی حاصل رہی ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو تین برسوں میں پاکستان کو ٹی ٹی پی سمیت متعدد ان دیگر گروپوں کی جانب سے بھی سیکورٹی چیلنجز ، خطرات لاحق ہوگئے ہیں جن کو افغانستان میں ٹھکانے میسر ہیں اور ان گروپوں میں القاعدہ بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ نے ایسی ہی ایک رپورٹ 24 جولائی 2023 کو بھی جاری کی تھی ۔ اس رپورٹ میں بھی اقوام متحدہ نے قرار دیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے سیکورٹی مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ ٹی ٹی پی اور القاعدہ افغان عبوری حکومت کی سرپرستی کے باعث مضبوط ہوتی جارہی ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر سال 2022 کے بعد تعلقات بہت کشیدہ رہے اور رواں برس پاکستان نے دو تین بار افغانستان کے اندر جاکر ٹی ٹی پی کے بعض ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا ۔ چند ہفتے قبل اس قسم کی اطلاعات موصول ہوئیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار ایک وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کرنے والے ہیں تاہم بعد میں ایسا ممکن نہ ہوسکا کیونکہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں کرنے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور افغانستان کی عبوری حکومت کے متعدد وزراء اس مسئلے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے رہے ۔
ماہرین کے مطابق آیندہ چند ہفتے دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے مزید کشیدگی پر مشتمل ہوں گے کیونکہ پاکستان کے بعض وزراء متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کا پیچھا کرتے ہوئے افغانستان میں کارروائیوں کا حق حاصل ہے ۔ پاکستان کو نہ صرف یہ کہ پاک افغان بارڈر بلکہ پاک بھارت سرحد پر بھی کشیدگی کا سامنا ہے اور بھارت مسلسل الزام لگارہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں رواں ماہ ہونے والے بعض حملوں کے پیچھے بھارت کے بقول پاکستان کا ہاتھ ہے ۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا آرہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ بھارت اپنی سیکیورٹی ناکامیوں کا ملبہ حسب سابق پاکستان پر ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاہم عالمی میڈیا پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے ۔