تحریر: اے وسیم خٹک
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقے جمرود میں ایک قومی جرگہ منعقد کیا جس میں قبائلی عمائدین اور سیاسی نمائندے شریک ہوئے۔ اس جرگے کا مقصد پشتونوں کے مسائل پر بات چیت کرنا اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھانا تھا۔ تاہم اس موقع پر پیش کیے گئے اعداد و شمار اور دعوے اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں کیونکہ یہ حقائق سے متصادم نظر آتے ہیں۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے جرگے میں کہا کہ تقریباً 6,700 پشتون لاپتہ ہیں اور فوجی آپریشنز کے نتیجے میں تقریباً 370,000 مکانات، مساجد اور بازار تباہ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار حقیقت سے کافی دور ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں لاپتہ افراد کی تعداد 2,271 ہے جن میں سے خیبرپختونخوا میں یہ تعداد 1,322 ہے۔ اس کے برعکس پی ٹی ایم کے دعوے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔
جنوبی وزیرستان میں بازاروں کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے پی ٹی ایم نے دعویٰ کیا کہ وہاں ہزاروں بازار مسمار کیے گئے جو انتہائی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس علاقے میں دھماکوں کی تعداد 100 سے کم ہے۔ ان دھماکوں کے متاثرین کی بحالی کے لئے حکومت نے خصوصی منصوبے شروع کیے ہیں اور اس سلسلے میں فوجی اور سول انجینئرز کی مشترکہ ٹیمیں متاثرہ علاقوں کی صفائی کے لیے کام کر رہی ہیں۔
پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے دہشت گردی کے واقعات کا بھی ذکر کیا لیکن یہ بات نظر انداز کی گئی کہ 2007 کے مقابلے میں 2023 تک دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے 11 بڑے آپریشن کیے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ یہ کامیابیاں فوج کی قربانیوں اور ان کی محنت کا نتیجہ ہیں۔
حکومت نے متاثرہ علاقوں میں بنیادی سہولیات کی بحالی اور ترقی کے لیے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں سڑکوں، اسکولوں، اور اسپتالوں کی تعمیر شامل ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ علاقوں میں غربت کی شرح میں 15 فیصد کمی ہوئی ہے جو پی ٹی ایم کے دعووں کے برعکس ہے۔
حکومت نے 2020 سے 2024 تک صوبے میں صنعتی بحالی کے لیے 1,000 سے زائد منصوبے مکمل کیے ہیں، جس سے علاقے میں روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور سابق فاٹا میں تعلیم، صحت اور معاشی خود انحصاری کے لیے کئی فلاحی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن کی بدولت ہزاروں طلباء کو تعلیم کے مواقع مل رہے ہیں۔ مثلاً چیف آف آرمی اسٹاف کی یوتھ ایمپلائمنٹ اسکیم کے تحت ان اضلاع میں 1,500 مقامی بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔
پی ٹی ایم کا ہدف عوام میں بے چینی پیدا کرنا ہے اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی بیانیہ تخلیق کرنا ہے۔ ان کے اعداد و شمار اور دعوے جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ اگر وہ واقعی عوام کی بہتری کے خواہاں ہیں تو انہیں زمینی حقیقتوں کا سامنا کرنا ہوگا اور حکومت کی طرف سے کی جانے والی ترقیاتی کوششوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔
آخری تجزیے میں یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی ایم کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار جھوٹ پر مبنی ہیں۔ خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا میں ریاست نے امن، ترقی، اور بحالی کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں۔ عوام کو ایک حقیقت پسندانہ بیانیہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ استحکام اور ترقی کی راہ ہموار کر سکیں۔ اگر حکومتیں عوامی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گی تو ایسے جرگے محض نمائشی قدم ثابت ہوں گے اور پشتون علاقوں کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔