تحریر: ساجد انور وردگ
عام طور پر ہمیں خود کش دھماکہ کرنے والے یا دہشتگردی کرنے والے نظر آتے ہیں لیکن یہ بس چلتے پھرتے مشین ہیں جن کا دماغ پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح کسی مشین کو کمپیوٹر کے ذریعے کوئی حکم ملتا ہے اور وہ پورا کرتا ہے بالکل اسی طرح یہ سامنے نظر آنے والے انسان ہر حال میں حکم پورا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسے سافٹ ویئر کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں جن کی بنیاد جذبات اور کم علمی پر مبنی ہوتی ہے۔
انتہا پسندی کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی فرد یا گروہ کا اعتقادی نظام جو انہیں اپنے نظریاتی، مذہبی، سیاسی، ثقافتی یا نسلی مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے اور جن کو اپنے علاوہ سب غلط نظر آتے ہیں۔
1979 سے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تشدد کا رجحان شروع ہوا۔ پچھلے پچاس سالوں سے ہمارا معاشرہ ایک انتہا پسند معاشرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہی حال ہمارے تعلیمی اداروں کا ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان کے قتل نے انتہا پسندوں کو ہجومی قتل کی صورت میں ایک نئی تکنیک فراہم کی۔ اس کے قتل کے بعد سینکڑوں طلباء اور فیکلٹی ممبران پر تشدد اور قتل کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت بڑے مسائل سے نبرد آزما ہے جیسے اساتذہ کی کمی، بچوں کا سکول نہ جانا، لڑکیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک، ناکافی سکول، تربیت یافتہ فیکلٹی کا نہ ہونا، اور اسکولوں کی بوسیدہ عمارتیں لیکن ان سب سے بڑھ کر جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہے تعلیمی اداروں سے انتہا پسند ذہنوں کا نکلنا۔
خیبرپختونخوا کے موجودہ معاشی اور سماجی ڈھانچے میں مذہبی اور جدید دونوں طرح کے تعلیمی نظام کے طالب علم ڈپریشن اور اضطراب سے گزر رہے ہیں۔ پانی پر آگ، تعلیمی نظام میں امن کی تعلیم کا فقدان ہے۔ یہ نسل ڈیجیٹل میڈیا کی عادی ہے، زیادہ تر وقت آن لائن پلیٹ فارمز پر گزارتی ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے پڑھے لکھے لوگوں کو بھرتی کرنے کا ایک نیا طریقہ اپنایا اور غیر مسلموں کی طرف مذہبی اور جذباتی مواد پر مشتمل مواد بنانا شروع کیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں طالبان کے لیے ہمیشہ سے لوگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ جنگجو اکثر اپنے عقائد، غریب ہونے، یا امن اور ہم آہنگی کے بارے میں نہ جاننے کی وجہ سے مشتعل ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی کا فقدان وہ اہم بنیاد ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد ان نوجوان طلباء کو اپنے نطریات پر قائل کرتے ہیں۔ مذہبی ترانے بھرتی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ترانے تاریخ، علامتوں، ویڈیو اور تصویروں پر مشتمل ہوتے ہیں جو فخر، امید، مایوسی یا اداسی جیسے طاقتور جذبات ابھارتے ہیں۔ ان کا مقصد نوجوانوں کو اپنے مقصد میں شامل ہونے کی ترغیب دینا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
پہلے تو یہ مسئلہ پختونخوا کے کچھ علاقوں تک محدود تھا لیکن آج یہ بڑے شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں تک پہنچ چکا ہے۔ اساتذہ کلاس روم میں مذہبی یا سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں، ایک ڈر ہمیشہ لگا ہوتا ہے کہ کلاس میں پتہ نہیں کون اٹھ کر گولی مار دیں۔ یہ ساری صورتحال آزادانہ گفتگو کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، نتیجتاً ہماری آنے والی نسل کنویں کے مینڈک بن رہی ہے۔
اگر اس ٹائم بم کو ہم نے ناکارہ بنانا ہے تو ہمیں آنے والی نسل کو امن کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ اس نظام میں تنازعات کے حل کی حکمت عملی، بقائے باہمی، معاشرتی ذمہ داری، صنفی مساوات، جمہوریت، عدم تشدد، اسلحہ کی تخفیف، انسانی حقوق، تاریخ، مواصلات کی مہارتوں کے ساتھ ساتھ وسیع النظری کی تعلیمات شامل ہیں۔ اسکو رسمی، غیر رسمی، مدارس اور جدید تعلیمی اداروں میں لاگو کیا جاسکتا ہے۔
اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت خیبرپختونخوا نے 30 اگست 2021 کو صوبائی اسمبلی سے “خیبرپختونخوا سینٹر آف ایکسیلنس ان کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم ایکٹ 2021ء” کی منظوری دی۔ یہ ایکٹ 7 ستمبر 2021 سے نافذالعمل ہے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد خیبر پختونخوا میں پرتشدد انتہا پسندی پر تحقیق کے لیے سینٹر آف ایکسی لینس قائم کرنا تھا، جس کا کام دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنا ہے، خاص طور پر جو نفرت، انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے بیانیے سے پیدا ہوتے ہیں۔ مذکورہ قانون بلیک لسٹ اداروں اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے خیراتی فنڈز کے غلط استعمال اور پرتشدد انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس سنٹر نے تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کے سیمینار کروانا شروع کر دیے ہیں تاکہ اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی بنیادوں پر طلبہ و طالبات کی ذہن سازی کی جائے۔
جب تک ایک معاشرے یا کلاس روم میں ساتھ وقت گزارنے والے مختلف علاقوں، مذاہب، کلچر اور زبانوں کے افراد ایک دوسرے کے عقائد ونظریات کا احترام کرنا اور برداشت کرنا نہیں سیکھتے، امن کا فروغ ممکن ہی نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف آگاہی اس معاشرتی سوچ کو بدل سکتی ہے یا ہمیں اپنے بچوں کو سکول سے ہی امن کی تعلیم دینی چاہیے؟ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں کہ حکومت ایک چھوٹی سی کتاب بنائے جس میں مختلف مذاہب کی تعلیمات کی روشنی میں برداشت اور عدم تشدد کے مواد شامل ہو اور تعلیمی نظام میں اسکو پڑھانا لازم قرار دیں۔ آج ہم قدم اٹھائیں گے تو کل ہماری آنے والی نسل اس بیماری سے نجات حاصل کر سکے گی۔