GHAG

نظریات کی جنگ، کنٹرول کی یا وسائل کی؟

خطے میں جاری جنگ کی مختلف وجوہات اور جہتیں رہی ہیں اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے حلقوں کے لیے 40 برسوں سے چلی آنیوالی اس جنگ کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ہمیشہ ایک مشکل کام اور ٹاسک بنا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اکثر سیاسی حلقے بھی جاری جنگ کی پس پردہ محرکات اور مقاصد کی تسلی بخش تعریف اور وضاحت نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے 40 سال گزرنے کے باوجود عوامی حلقوں کے علاوہ اکثر سیاسی حلقوں میں یا تو معلومات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے یا اکثریت اب بھی  کنفیوژن سے دوچار ہے۔ اس جنگ کو ماہرین چار پانچ مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کرتے آرہے ہیں جن کی تفصیل ترتیب وار کچھ اس طرح بنتی دکھائی دیتی ہے۔

1۔ جاری جنگ کا نظریاتی پہلو

افغانستان اور پاکستان پر مشتمل یہ خطہ صدیوں سے تہذیبی ، مذہبی اور لسانی کشیدگیوں اور توڑ پھوڑ کی لپیٹ میں رہا ہے۔ اگر اس خطے کو وسیع تر تناظر میں “جنگوں کی ماں” کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اسی تناظر میں ہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں ننگرہار پر گرائے گئے ایک بم “مدر آف آل بمبز” کی مثال دے سکتے ہیں جس کو جدید دور کی ایک بدترین حملے اور تجربے کا نام دیا گیا۔ اس خطے میں یونانیوں سے لیکر امریکہ کی حالیہ مہم جوئی تک تمام سپر پاورز نے اپنے مفادات کی خاطر جنگیں لڑیں اور اب ایک ایسی نئی لڑائی کی پیشنگوئی کی جارہی ہے جس میں امریکہ، چین  اور روس بڑے اور بھارت، ایران اور بعض دیگر چھوٹے کھلاڑی ہوں گے۔ سال 1979 کے بعد جس جنگ کی ابتداء ہوئی اس کے دو بڑے عوامل تھے ۔ ایک یہ کہ افغان مجاہدین کے 9 سے 11 گروپوں نے افغان قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے اقتدار پر قبضہ کو سوویت یونین کی سربراہی میں اس کے کمیونسٹ نظریات کے تناظر میں اسے اسلام اور کفر یا الحاد کے درمیان ایک نظریاتی ٹکراؤ کی شکل میں دیکھا اور جب 1980 میں سوویت یونین نے کھل کر افغانستان میں فوج داخل کی تو مجاہدین کے پیچھے نہ صرف پاکستان سمیت مسلم دنیا کی مذہبی جماعتیں اور جہادی تنظیمیں کھڑی ہوگئیں بلکہ پاکستان، سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر،مصر جیسی ریاستیں کھڑی ہوگئیں اور یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے علاوہ اخوان المسلمین اور القاعدہ کی شکل میں طاقتور عرب لابیز بھی میدان میں اتر آئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرد جنگ کے عروج کے ایک دور میں اسلامی جہادی تنظیموں کو ایک نئی شکل اور طاقت مل گئیں اور اس طاقت کے پیچھے وہ علاقائی اور عالمی ریاستیں کھڑی نظر آئیں جن کا مقصد سوویت بلاک کو پیچھے دھکیل کر نہ صرف یہ کہ اس کی پیشقدمی کا راستہ روکنا تھا بلکہ سوویت یونین سے ویتنام اور بعض دیگر مہمات کا بدلہ بھی لینا تھا۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک امریکی صدر نے نہ صرف افغان مجاہدین کے بعض لیڈروں کو وہائٹ ہاؤس میں پروٹوکول سے نوازا بلکہ ایک موقع پر اپنے خطاب میں یہاں تک کہا کہ جو لوگ اس مزاحمت یا جنگ میں جانیں دیں گے وہ شہید کہلائیں گے۔

اس مزاحمت کی دوسری پڑاؤ کے دوران جہادی حلقوں نے ایک مذہبی تصور کی بنیاد پر یہاں تک بیانیہ تشکیل دیا کہ اسلام کے بنیادی فلسفہ اور بعض روایات کے مطابق کفر کے خلاف قیامت سے پہلے جو آخری معرکہ لڑا جائے گا اس میں حصہ لینے والے لوگوں اور علاقے کی جو تصویر کشی اسلام میں کی گئی ہے اس کے شرایط پر افغانستان کی سرزمین اور افغانی یا پشتون ہی پورے اترتے ہیں اور اسی تصور کی بنیاد پر بعد میں داعش خراسان کی تشکیل کی گئی۔ یوں کسی لمبی بحث کی بجائے ایک خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگ کی بنیاد نظریات کے دفاع یا پھیلاؤ کے فلسفہ جہاد کی تھیوری پر رکھی گئی یہ الگ بات ہے کہ مختلف اوقات میں بہت سی چیزیں بوجوہ ڈی ٹریک بھی ہوتی رہیں اور ایسا متعدد دوسرے ممالک میں بھی ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

2: عالمی طاقتوں کی باہمی لڑائی

اس لمبی جنگ میں جہاں نظریاتی وابستگی اور کشیدگی کی ٹکراؤ کے عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا اسی کے تسلسل میں گزشتہ سے پیوستہ کے تناظر میں سرد جنگ کے تسلسل کے پس منظر میں مستقبل کے متوقع عالمی صف بندی کی پلاننگ کو سامنے رکھ کر عالمی کھلاڑیوں نے بہت بڑی سرمایہ کاری کی جس کے نتیجے میں ڈالرز گیم کی تھیوری نے جنم لیا اور وار یا ویپن انڈسٹری نے ایک نئی شکل اختیار کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ اس تمام جنگ میں نہ صرف یہ کہ امریکہ کی ہتھیاروں کی انڈسٹری نے انتہائی مرکزی کردار ادا کیا اور بش خاندان سمیت متعد دیگر نے اربوں کھربوں کمائے بلکہ متعدد دیگر نے بھی ایک کاروبار کی شکل میں اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور یہ سلسلہ صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا تاہم اس تمام گیم میں افغانستان اور پاکستان کی سرزمینوں اور عوام کو میدان جنگ کے علاوہ را میٹریل کے طور پر استعمال کیا گیا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ دو تین مرحلوں کی شکل میں لڑی جانے والی اس جنگ سے سب سے زیادہ جانی ، اقتصادی اور سماجی نقصان ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف رہایش پذیر پشتونوں کو اٹھانا پڑا۔ سال 2020 کے دوران چین نے ایک نئے کھلاڑی کے طور پر اس جنگ میں انٹری مار کر مستقبل کے جنگی منظر نامے کو اور پیچیدہ بنانے کے خدشات پیدا کیے اور سال 2023 کے بعد پاکستان اور افغانستان میں چینی اہلکاروں اور مفادات پر ہونے والے حملوں کو ماہرین نے اسی تناظر میں دیکھا۔

3: بے پناہ قدرتی وسائل پر قبضے کی تھیوری

افغانستان اور پاکستان پر مشتمل اس پٹی کو قدرت نے نہ صرف وسطی ایشیا اور سنٹرل ایشیاء کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کی شکل میں تخلیق کرتے ہوئے ایک ناگزیر روٹ کی اہمیت سے نوازا بلکہ یہاں پر موجود افرادی قوت اور اس کی صلاحیت نے بھی سب کو اپنی طرف کھینچ کر رکھا۔

دوسری جانب قدرت نے اس خطے کو لامحدود قدرتی وسائل کی موجودگی کے تناظر میں کچھ ایسی سخاوت سےنوازا کہ دنیا کی جدید ریاستوں اور بڑی طاقتوں کے لیے بھی ان وسائل کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ بات انتہائی قابل ذکر اور قابل توجہ ہے کہ 90 کی دہائی میں جب امریکہ اور القاعدہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو اس کے پیچھے بھی اس خطے میں قدرتی وسائل خصوصاً تیل کے وسیع ترین ذخائر کی موجودگی اور اس سے جڑا ہوا تیل کا عالمی بزنس کا مفاد اور ٹکراؤ کارفرما تھا۔ اس کاروباری تصادم سے قبل امریکہ کے بعض حکمرانوں اور ان کی متعدد کمپنیوں کے ساتھ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے نہ صرف ذاتی مراسم تھے بلکہ ان کی مشہور زمانہ کمپنی بن لادن اور متعدد اہم امریکی کمپنیوں کے درمیان کھربوں ڈالرز کی پارٹنر شپ بھی چل رہی تھی ۔ معاملہ اس وقت خراب ہوگیا جب ایک تیل نکالنے کے ایک مشہور امریکی کمپنی ” یونی کال ” اور اسامہ بن لادن کی کمپنی “بن لادن انڈسٹری” کے درمیان تیل کے بعض پراجیکٹس پر اختلافات پیدا ہوگئے اور اس تصادم نے بعد میں ایک ایسی کشیدگی کی بنیاد رکھی جس کے جنم سے ناین الیون کے واقعے اور اس کے پیش منظر میں افغانستان پر 20 برسوں تک امریکہ کے قبضے سمیت عراق ، شام ، یمن اور بعض دیگر ممالک پر مسلط کی گئی جنگوں کا راستہ ہموار ہوگیا اور اس سے اگلے مرحلے میں جب داعش کی شکل میں ایک نئی عالمی قوت سامنے آئی تو اس نے سخت گیر جہادی نظریات کے علاوہ عراق اور شام میں تیل کے ذخائر پر کچھ اس انداز میں توجہ مرکوز کی ایک وقت میں یہاں تک کہا گیا کہ داعش کے پاس دنیا کے 10 ممالک سے زیادہ کے اثاثے یا دولت ہے اور اسی تلاش میں داعش افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی جانب متوجہ ہوگئی جہاں کے قدرتی وسائل دنیا کے درجنوں ممالک کے مجموعی پیداوار سے زیادہ ہیں ۔ اس لیے یہ خطہ نظریات اور لسانی کشیدگیوں کے عوامل کے بعد قدرتی وسائل کی موجودگی کی اپنی اہمیت کے تناظر میں سب کی توجہ کا مرکز بننے لگا۔

4: خطے میں موجود قدرتی وسائل کا ایک خاکہ

قدرتی وسائل اور ذخائر پر تحقیق اور سرویز کرنے والے ایک معتبر امریکی ادارے کی سال 2011 اور 2016 کی دو مختلف رپورٹس میں پاکستان اور افغانستان میں موجود بعض قدرتی وسائل کے بارے میں درجہ بندی کے فارمولے کے تحت انکشاف کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے شمالی علاقہ جات میں کم از کم 15 ٹریلین ڈالرز کے ناقابل یقین قدرتی وسائل اور ذخائر موجود ہیں ۔ ان رپورٹس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقوں ٹانک اور وزیر ستان سے لیکر جنوبی اضلاع سے ہوتے ہوئے چترال تک پھیلے ہوئے خطے میں تیل کے جو ذخائر پائے جاتے ہیں وہ سعودی عرب اور ایران دونوں کے مجموعی ذخائر سے تقریباً 9 فی صد زیادہ ہیں ۔ یہی صورتحال اس علاقے بلخصوص خییر پختونخوا کے قبایلی اور جنوبی اضلاع میں گیس کے ذخائر کے بارے  بھی پائی گئی۔سال 2016 کی آپ ڈیٹس میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر  آئندہ پندرہ بیس برسوں میں خیبرپختونخوا کے ان اضلاع میں زیر زمین موجود تیل اور گیس کو نکالا نہیں گیا تو پورے خطے میں ان ذخائر کے دباؤ اور تپش سے ایک تباہ کن زلزلہ آ جائے گا۔

لامحدود قدرتی وسائل کی موجودگی کی یہ نعمتیں صرف تیل اور گیس کے ذخائر تک محدود نہیں ہے بلکہ اس خطے میں سونے ، کرومائیٹ ، تانبے ، اور کویلے کے اتنے وسیع پیمانے پر ذخائر موجود ہیں جن میں سے اگر صرف 10 فی صد جو نکال کر قابل استعمال بنایا گیا تو پاکستان دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا ۔ ایک چینی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ان علاقوں میں قیمتی پتھروں کے تقریباً 120 اقسام موجود ہیں جو کہ دنیا کے کسی ملک یا خطے میں نہیں ہیں ۔قیمتی پتھروں کے یہ ذخائر ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع بونیر، سوات، چترال، اور دیر کے علاوہ قبائلی علاقوں مہمند ، باجوڑ اور خیبر میں پائے جاتے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن سے سونے، زمرد اور ان قیمتی پتھروں کی جو کڑی چل نکلی ہے وہ افغانستان کے متعدد سرحدی صوبوں تک بھی پھیل گئی ہے جن میں شورش زدہ صوبے نورستان اور کنڑ بھی شامل ہیں۔

اسی طرح پاکستان کی ایک معتبر سروے آرگنائزیشن نے سال 2020 کو ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ خیبرپختونخوا میں اعلیٰ کوالٹی کے کویلے کے جو ذخائر موجود ہیں وہ 70 اور 80 کی دہائیوں کے دوران بھارت کے راجھستان اور پاکستان کے صوبہ سندھ کے تھرپارکر کے دریافت کردہ ذخائر سے زیادہ ہیں ۔ اس قسم کی ایک رپورٹ کچھ برسوں قبل ایک چینی ادارے نے بھی جاری کی تھی ۔ اس تمام صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے صرف خیبرپختونخوا کے انتہائی شورش زدہ علاقے شمالی وزیرستان کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں دو تین سال قبل شیوا کے مقام پر گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تو پتہ چلا کہ اس سے پاکستان کے ذر مبادلہ کے ذخائر میں کم از کم 265 ملین ڈالرز کا اضافہ ہوگا۔

عین اسی عرصے میں شمالی وزیرستان ہی کے ایک علاقے محمد خیل میں بہت بڑے پیمانے پر کاپر کے ذخائر دریافت ہوئے جس کو پراسیس کرنے کے لیے محمد خیل کاپر مائننگ پراجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی ۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اس علاقے میں تقریباً 4: ملین ٹن تانبے کا ذخیرہ موجود ہے جس سے کھربوں کی بچت ہوگی۔ سال 2023 کی رپورٹس کے مطابق اس پراجیکٹ سے تانبہ نکالنے کا کام شروع کردیا گیا ہے جبکہ شیوا گیس پراجیکٹس کا بھی تقریباً 75 فی صد کام مکمل کیا گیا ہے۔ وزیرستان کے چلغوزہ کی پیداوار ، اس کی مقدار اور کوالٹی کا تو سب کو علم ہے کہ اس کی عالمی مارکیٹ میں کیا ویلیو اور ڈیمانڈ ہے اور اس کے ذریعے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کتنے ملین ڈالرز کا اضافہ ممکن ہے۔

پاکستان کو گزشتہ کئی دہائیوں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور کویلے اور تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کی مد میں پاکستان کی جانب سے پرائیویٹ سیکٹر کو کھربوں ڈالرز کی جو  ادائیگیاں ہورہی ہیں اس نے پاکستان کے مجموعی بجٹ اور اکانومی کو برباد کرکے رکھ دیا ہے تاہم نااہلی اور بیڈ گورننس کی حالت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں انتہائی کم لاگت سے ہزاروں میگاواٹ کی بجلی پیدا کرے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ سال 2010 کی ایک چینی سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے دریائے سوات اور دریائے چترال یا دریائے کابل پر کم لاگت سے قائم کیے جانے والے مجوزہ  ہائیڈل پاور پلانٹس لگانے کے بعض پراجیکٹس کے ذریعے 35 ہزار سے لیکر 50 ہزار میگاواٹ تک کی ناقابل یقین سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں چین اور بعض دیگر ممالک نے بہت کم مدت میں ان پراجیکٹس پر کام کرنے کی پیشکشیں بھی کیں اور اے این پی اور پیپلز پارٹی کی ایک گزشتہ حکومت نے اس پر کافی پیش رفت بھی کی مگر بعد میں اس پوری پراسیس کو سرد خانے کی نذر کیا گیا۔

اسی طرح پاکستان کو کئی دہائیوں سے گندم کی قلت کے مسلسل بحرانوں کا بھی سامنا ہے مگر اس پر قابو پانے کیلئے بھی پاکستان بلخصوص خییر پختونخوا کی دستیاب اراضی اور اس کی پیداواری صلاحیت کو شیر استعمال نہیں لایا جارہا۔ مثال کے طور پر 90 کی دہائی میں ایک کراچی بیسڈ تھنک ٹینک نے ایک سروے کی بنیاد پر انکشاف کیا کہ اگر خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کو دریائے سندھ سے پانی فراہم کی جائے تو یہاں اتنی مقدار میں گندم پیدا ہوگی کہ جس سے نہ صرف پاکستان کی اپنی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ یہ گندم باہر بھیجنے کا بھی قابل ہوسکے گا تاہم صورتحال یہ رہی کہ مختلف حکومتوں نے کئی دہائیوں کے گزرنے کے باوجود چشمہ رائٹ کنال اور گومل زام ڈیم جیسے پراجیکٹس کی تکمیل کو بھی ممکن نہیں بنایا ۔ اس تناظر میں اس بات کی نشاندھی لازمی ہے وزیرستان وغیرہ میں جب بدامنی کی ابتداء ہوئی تو ان پراجیکٹس کو مسلسل کارروائیوں اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور درجنوں چینی اور دیگر ممالک کے انجینئرز وغیرہ کو مختلف مواقع پر نہ صرف اغوا کیا گیا بلکہ متعدد کو مارا بھی گیا اور یہ سلسلہ مارچ 2024 کے اس کارروائی تک جاری رہا جس کے دوران خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں ایک خودکش حملہ میں 5 چینی اہلکاروں کو ہلاک کردیا گیا۔

اس تمام بحث اور پس پردہ محرکات ، واقعات میں ایک نکتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ پاکستان اور افغانستان کے جن جن علاقوں میں قدرتی وسائل اور ذخائر موجود ہیں وہ تمام علاقے مسلسل شورش ، کشیدگی ، حملوں اور دو طرفہ جنگوں کی لپیٹ میں رہے ۔ اس ضمن میں پاکستان کے اندر وزیرستان ، سوات ، ڈی آئی خان ، کوہاٹ ، مہمند ، باجوڑ ، کرک ، بونیر اور متعدد دوسرے علاقوں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

اسی طرح بلوچستان کے گوادر اور تربت کے بلوچ بیسڈ ان علاقوں کی مثال بھی دی جاسکتی ہے جہاں ری کوڈک اور سی پیک سے وابستہ دیگر پراجیکٹس انڈر پراسیس ہیں اور سی پیک کے تناظر میں خیبرپختونخوا میں جاری بدامنی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہاں ایک اور پہلو بھی کافی اہم ہے ۔ وہ یہ کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بعض دیگر کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے بعض اہم لیڈرز بھی میڈیا کے ذریعے یہ مہم چلاتے دکھائی دیے کہ ان کے بقول پاکستان کے اشرافیہ کے علاوہ بعض عالمی طاقتوں کی بھی پالیسی ہیں کہ پشتونوں کی نسل کشی کی جائے اور یہ کہ ان کے وسائل پر قبضہ کرلیا جائے ۔ اس تمام صورتحال سے یہ بعض دیگر عوامل اور پیچیدگیوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ نتیجہ بہت آسانی کے ساتھ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جاری کشیدگی اور جنگ کے پیچھے یہ اسباب بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں اور اس پس منظر یہ اندازہ لگانے میں کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آتی کہ مستقبل کا منظر نامہ اسی تسلسل کی عکاسی کرتا ہوا نظر آئے گا اور یوں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ جنگ ابھی مزید جاری رہے گی۔

(اور جنگ جاری ہے، عقیل یوسفزئی)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts