روخان یوسفزئی
کہتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے کنویں میں کتا گر کر مرگیا تھا وہ اپنی مسجد کے مولوی کے پاس گیا اور پوچھا کہ اب کنویں کو پاک اور صاف کرنے کے لیے شرعی حکم کیا ہے تو مولوی نے کہا کہ پچاس ڈول پانی نکالنے کے بعد کنواں پاک اور صاف ہوجائے گا۔لہذا اس آدمی نے وہی کیا جو اسے مولوی صاحب نے بتایا تھا۔پچاس ڈول پانی نکالنے کے بعد جب کنویں کا پانی چیک کیا تو اس سے اسی مرے سڑے ہوئے کتے کی بدبُو آرہی تھی وہ واپس پھر مولوی کے پاس چلا گیا اور کہا کہ پچاس ڈول پانی نکالنے کے باوجود بھی پانی سے وہی بدبُو آرہی ہے تو مولوی نے کہا اور مرے ہوئے کتے کیساتھ کیا کیا؟ تو آدمی بولا کہ جی وہ تو کنویں میں ہی پڑا ہوا ہے مولوی نے کہا ارے بے وقوف جب تک کتے کو کنویں سے باہر نہیں نکالوگے تو سینکڑوں ہزاروں ڈول پانی نکالنے سے بھی کنواں پاک اور صاف نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس پانی سے بدبُو جاسکتی ہے۔ شاید اس حکایت سے سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ جب تک ملک میں جاری دہشت گردی کے اسباب وعلل یا دوسرے لفظوں میں اس کی جڑوں تک رسائی نہیں حاصل نہیں کی جاسکتی کہ”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے“تب تک اس ناسور کا قلع قمع کرنے اور اس کی مکمل بیخ کنی میں کامیابی ممکن نہیں ۔لہذا ہمیں سب سے پہلے ان سرچشموں اور ذرائع ترسیل کو بند کرنا ہوگا جہاں سے انتہاپسندی،تنگ نظری،فرقہ واریت اورجنونیت کی نظریاتی تعلیم پھوٹتی اور پھیلتی ہے اور بعد میں دہشت گردی کی لہر بن کر ملک کے سیکورٹی فورسز،پولیس،عوام اور املاک پر حملہ آور ہوتی جاتی ہے۔انتہاپسندی،تنگ نظری،عدم برداشت،عدم رواداری اور دہشت گردی کی نظریاتی تعلیم کو پھیلانے میں اب جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی خصوصاً سوشل میڈیا فیس بک،واٹس ایب،ایکس،انسٹاگرام اور یوٹیوب سے بھی خوب کام لیا جارہا ہے جس کے لیے گزشتہ دنوں آرمی چیف عاصم منیر نے ”ڈیجٹل دہشت گردی“ کا نام دیا ہے۔حقیقت بھی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا تو ایک شتربے مہاربنا ہوا ہے جس پر کوئی ادارتی کنٹرول اور نہ ہی ریاستی کنٹرول ہے۔بہرحال اس میں دو رائے نہیں کہ پاک فوج اور پولیس کے افسران اور جوان اپنی جانوں پر کھیل کر بڑی دلیری کیساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور اس ناسور کا خاتمہ کرنے کے لیے دن رات برسرپیکار ہیں اور اس جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کررہے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پھر بھی کچھ عناصر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔سب سے زیادہ افسوس ناک اورحیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختون خوا کے مشیر برائے اطلاعات وتعلقات عامہ جیسے ذمہ دار انسان بیرسٹرسیف بھی اپریشن عزم استحکام کے بارے میں وفاقی حکومت کی مخالفت میں ایک طرح کی غلط فہمی پھیلارہے ہیں گزشتہ روز اخبارات میں ان کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں کہا گیا ہے کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ جعلی، وفاقی حکومت فوج اور عوام میں خلیج پیدا کررہی ہے“اگرچہ چند ہی دن پہلے انہی صاحب نے”اپریشن عزم استحکام“ بارے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اگر جنگ فوج نہیں لڑے گی تو کون لڑے گی؟ اور کھل کر اپریشن عزم استحکام کی حمایت کی تھی۔لہذا ان کی وفاقی حکومت کیساتھ خراب تعلقات اور مخالفت اپنی جگہ مگر جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی بات ہے تو اسے”جعلی“ کہنا لوگوں کے اذہان میں بہت بڑی غلط فہمی پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔یہ جنگ تو انہی کے بقول پاک فوج ہی لڑ رہی ہے تو پھر اس قسم کے بیانات اور جملوں سے وہ قوم کو کیا پیغام اور تاثر دینا چاہتے ہیں؟خدارا یہ بڑا نازک اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں اور قائدین کو اس معاملے پر سیاسی سکورنگ یا اپنی مخالف کسی جماعت کو نیچا دکھانے میں ایسے بیانات اور تقاریر سے گریز کرنا چاہیئے جس سے ملک کے دفاعی اداروں پر کوئی انگلی اٹھا سکے اور لوگوں کے ذہن میں دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ پر کسی شک وشہبے کا اظہار کریں۔لہذا سب کو اس سنگین معاملے کی نزاکت اور سنجیدگی کا ادراک کرنا ہوگا۔کیا اس قسم کے بیانات اور جملوں کے استعمال سے دہشت گردوں کیساتھ لوگوں کی نفرت اور حقارت بڑھے گی یا ہمدردی اور حمایت پیدا ہوگی؟اس سوال پر ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت میڈیا،تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔