GHAG

چیف جسٹس انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں سے غیر مطمئن کیوں؟

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں سے متعلق ایک اہم اانتظامی جلاس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دو دیگر ججز نے ان عدالتوں کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان عدالتوں اور ان کے ججوں پر موجودہ حالات کے تناظر میں بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ اپنی کارکردگی اور رفتار کو بہتر اور تیز بنائیں بلکہ حکومت کو درکار سہولیات بھی فراہم کریں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو جو بریفنگ دی گئی بعض ذرائع کے مطابق ان کی رو سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کی عدالتوں کی کارکردگی بہتر ہے جبکہ سب سے کمزور کارکردگی سندھ کی بتائی گئی۔ خیبرپختونخوا میں قائم انسداد دہشت گردی عدالتوں کی کارکردگی سندھ کے بعد دوسرے نمبر پر رہی یعنی خراب رہی حالانکہ دہشتگردی سے خیبرپختونخوا ہی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ جن ججز کی کارکردگی بہتر رہی ہے ان کو ٹریننگ اور مزید کورسز وغیرہ کے لئے بیرون ملک بھیج دیا جائے۔ اس سیشن میں شرکاء کو بتایا گیا کہ ان عدالتوں میں 2200 سے زائد کیسز یا مقدمات زیر سماعت ہیں مگر سزاؤں کی شرح کم ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ان عدالتوں کی کارکردگی بوجوہ کبھی مثالی نہیں رہی ہے ۔ سال 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق ان عدالتوں سے تقریباً 75 فیصد دہشت گردوں کو یا تو رعایتیں ملتی رہی ہیں یا سزائیں ملنے کے بعد دوسری عدالتوں نے کمزور ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر دہشت گردوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ یہ لوگ رہائی پانے کے بعد پھر سے ریاست اور عوام کے خلاف سرگرم عمل ہوجاتے ہیں اور اس کے نتائج آج بدترین دہشتگردی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ کمزور تفتیشی اور عدالتی نظام سے یہ عناصر ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں جبکہ رہی سہی کسر پی ٹی آئی جیسی پارٹیاں پوری کر دیتی ہیں جس نے اپنی حکومت میں لاتعداد جنگجووں کو یا تو رہا کیا یا افغانستان سے واپس لیکر آئی ہے۔ شاید اسی کا ردعمل ہے کہ بعض معتبر لوگ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ایسے تمام عناصر کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جائے۔

گزشتہ روز پشاور میں اپیکس کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں متعدد اہم فیصلے کیے گئے تاہم ان فیصلوں کے نتائج تب برآمد ہوں گے جب ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کرتی آرہی ہے مگر سیاسی قوتیں اور بعض سول حکومتیں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں اور خیبرپختونخوا اس کے باوجود حالات جنگ میں ہے کہ فورسز مسلسل کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں ۔ گزشتہ روز بھی وزیرستان میں ایک جھڑپ کے دوران 4 سیکورٹی اہلکار شہید جبکہ 5 خوارج ہلاک ہوئے تاہم حملوں کی تعداد میں کوئی واضح کمی نہیں آرہی ۔ اس صورتحال سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر سطح پر اقدامات کیے جائیں اور یہ سنگین مسئلہ صرف سیکورٹی فورسز کی رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کی سطح پر حل کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts