انڈین میڈیا پر طالبان کے حق اور فیک نیوز کی باقاعدہ مہم جاری
اعلیٰ بھارتی عہدیدار کی ایک بار پھر ملا یعقوب کے ساتھ ملاقات
پاکستان کراس بارڈر اٹیکس پر مزید مفاہمت کے موڈ میں نظر نہیں آتا، سمیرا خان
پاکستان کا کوئی نقصان نہیں ہوا فیک نیوز کا سہارا لیا جارہا ہے، افتخار فردوس
پشاور (غگ مانیٹرنگ ڈیسک) ہفتہ 28دسمبر کے دن افغانستان کی سرکاری سرپرستی میں پاکستان کے کرم اور وزیرستان کے سرحدی علاقوں پر خوارج کی جانب سے کیے گئے حملوں پر بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے “جشن” جیسا ماحول بناکر کئی گھنٹوں تک باقاعدہ مہم چلائی اور اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے پاکستان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
مین سٹریم بھارتی میڈیا پر اپنے تبصروں میں متعدد ریٹائرڈ فوجی افسران نے یہاں تک کہا کہ پاکستان کے پشتون اگر ایک طرف عمران خان اور منظور پشتیں کی قیادت میں متحد ہوکر بغاوت پر اتر آئے ہیں تو دوسری جانب ان تجزیہ کاروں کے بقول افغانستان کی عبوری حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان پر چڑھائی شروع کردی ہے اور خیبرپختونخوا پاکستانی ریاست کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ متعدد وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی بہت متحرک رہیں جو کہ بھارت میں شدت پسند بی جے پی کی حمایت کے لیے مشہور ہیں۔ان اکاؤنٹس سے پاکستان کے ہیلی کاپٹر مار گرانے کی فیک نیوز کے علاوہ یہاں تک پروپیگنڈا کیا گیا کہ افغانستان اور طالبان نے پاکستان کی چوکیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
کچھ ایسا ہی پروپیگنڈا پاکستان مخالف افغانیوں اور پاکستان کے بعض قوم پرستوں نے بھی کیا۔ اس تمام پروپیگنڈا صورتحال کے اندر امارات اسلامیہ، بھارت، کالعدم ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور بلوچ مزاحمت کار ایک پیج پر کھڑے نظر آئے تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پی ٹی آئی بھی اس مہم میں پیچھے نہیں رہی اور اس قسم کا بیانیہ پیش کرتی رہی کہ اگر پاکستان میں عمران خان برسر اقتدار ہوتے تو افغانستان ہمارا دوست ہوتا۔
سیکورٹی ذرائع نہ صرف پاکستان کو پہنچنے والے کسی بڑے نقصان کو دونوں ممالک کی فوجی صلاحیت کے تناظر میں خارج از امکان قرار دیتے رہے بلکہ اس عزم کا اظہار بھی کرتے رہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کسی دباؤ میں آنے کی بجائے ضرورت پڑنے پر 25 دسمبر کی ائیر اسٹرایکس کی طرح مزید کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
اس سے قبل بھارت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے افغانستان کے اہم سیاسی اور حکومتی عہدیدار مولوی یعقوب اور بعض دیگر کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ان ملاقاتوں کی باقاعدہ تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ بعض معتبر حلقوں کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت افغان حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کو باقاعدہ فنڈنگ کررہا ہے تاکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے حالانکہ اسی بھارت کا مستقل بیانیہ یہ رہا کہ افغان اور پاکستانی طالبان مقبوضہ جموں کشمیر میں اس کی فورسز کے خلاف لڑتے آرہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کا کوئی تقابلی جائزہ یا مقابلہ نہیں بنتا، سمیرا خان، دفاعی تجزیہ کار
اس تمام منظر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار سمیرا خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا کوئی تقابلی جائزہ یا مقابلہ نہیں بنتا اور اس قسم کے تاثر کا زمینی حقائق کے تناظر میں سرے سے کوئی جواز ہی نہیں بنتا کہ افغانستان پاکستان کا ہمسری کرسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز اپنی تفصیلی بریفنگ میں ریاست کی نمائندگی کرتے ہوئے ان تمام ایشوز پر کھل کر بات کی اور جس پارٹی کے لیڈر نے جیل سے 25 دسمبر کی پاکستانی کارروائی کی مذمت کی ڈی جی آئی ایس پی آر نے کھل کر موجودہ صورتحال کو اس لیڈر کے ایک مذاکراتی عمل کا نتیجہ قرار دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ فوجی قیادت کو تمام مسایل اور اسباب کا ادراک ہے اور کراس بارڈر ٹیررازم پر اب مزید کسی رعایت کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
افغانستان کی جانب سے پروپیگنڈا فیس سیونگ کی ایک کوشش تھی، افتخارفردوس، سینئر صحافی
سینئر صحافی افتخار فردوس کے بقول 28 دسمبر کو فیک نیوز اور منظم پروپیگنڈا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید افغان طالبان یا ٹی ٹی پی وغیرہ نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچایاہے حالانکہ عملاً ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور پاکستان کے موثر ردعمل کے بعد نہ صرف فائرنگ وغیرہ کا سلسلہ رک گیا بلکہ دونوں حکومتوں کے درمیان رابطہ کاری بھی ہوئی۔ ان کے مطابق افغانستان کی جانب سے یہ سب کچھ پاکستان کی 25 دسمبر کی ائیر اسٹرایکس کے تناظر میں محض “فیس سیونگ” کی ایک کوشش تھی۔
( 29 دسمبر 2024 )