کیا افغانستان کے دیگر ملکوں کے ساتھ بھی سرحدیں کھلی ہیں؟
بارڈرمنجمنٹ وقت کی ضرورت اور پوری قوم کامتفقہ مطالبہ تھا
اپنی ہی فوج کے انخلاء کامطالبہ خطرناک اورتشویشناک ہے، سیاسی جماعتوں کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی
تحریر: آصف نثار غیاثی
کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے جو جرگہ منعقد کیاگیا اس کی حاضری اور انتظامات کے معاملہ پر بات کرنے کے بجائے اگر اس کے ایجنڈے اور مطالبات پر بات کی جائے تو بہت ساری چیزیں کھل کر سامنے آجائیں گی۔ سب سے خطرناک مطالبات جو سامنے آئے ہیں وہ پاک فوج کے انخلاء اور سرحدوں کو کھلا رکھنے کے ہیں۔ پی ٹی ایم کے حوالہ سے ماضی میں بھی بہت سے حلقے شکو ک وشبہات کااظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ بات شرو ع ہوئی تھی نقیب اللہ محسود قتل سے اور اب ریاست کے خلاف مہم تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ اس تمام عرصہ کے دوران صوبہ کی اہم سیاسی قوتوں نے انتہائی ناقص حکمت عملی اختیار کیے رکھی جس کا خمیازہ آج وہی جماعتیں بھگتنے پر مجبور بھی ہیں۔ یہ بات بالکل بجاہے کہ پی ٹی ایم ایک طرف تو پختون اورپختونولی کی بات کرتی ہے مگر دوسری طرف پختون مسائل کاحل ازبکی ٹوپی کوقرار دیتی ہے۔ آخر پختون پگڑی کا قصور کیا ہے کہ ازبکی ٹوپی پختون قوم پر مسلط کردی گئی ہے؟ اس پر ضرورپختون ثقافت کے علمبرداروں کو روشنی ڈالنی چاہئیے۔ بہرحال جرگہ نے مطالبات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کردی ہے لیکن جب یہ کہناکہ ہم فوج کو انخلاء کے لیے دوماہ کی ڈیڈ لائن دیتے ہیں انتہائی خطرناک امر ہے اور اس پر ان تمام سیاسی جماعتوں کو ضرور بات کرنی چاہیئے جنہوں نے یہ ضمانت دی تھی کہ آئین اور ریاست کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی۔
پی ٹی ایم کو کھلے دل سے اس امر کا بھی اعتراف کرناچاہئے کہ ماضی قریب تک ان کے اجتماعات میں افغانستان کے پرچم کیوں لہرائے جاتے رہے ہیں جب کبھی اس پر اعتراض کیا جاتا تو پی ٹی ایم کے حامی حلقے اس کا دفاع کرتے اور کبھی اس کو غلطی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مگر جب بقول علی امین گنڈاپور پی ٹی ایم کو یہ کہا گیا کہ اس طرح غیر ملکی پرچم لہرانے کی نہ تو کوئی تک ہے نہ ہی کو ئی جواز، جس پر منظور پشتین کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اب کے بار ایسا نہیں ہوگا۔ گویا ماضی میں اگر ایسا ہوتارہا ہے تو وہ غلط تھا اور پی ٹی ایم کو اپنی اس غلطی کااعتراف کھلے دل کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اسی طرح ماضی میں انکے اجتماعات میں جس طرح ریاست مخالف نعرے بلند کیے جاتے رہے ہیں اس سے بھی جب ان کو منع کیاگیا تو اس بار اس معاملہ میں بھی احتیاط کی گئی تو گویا ماضی میں یہ بھی غلط قدم تھا۔ اب اگر یہ غلط تھا تو دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی ایم والے اس غلطی کا بھی کب کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں ان کے دو خطرناک مطالبات کی طرف۔ پہلا مطالبہ قبائلی اضلا ع سے پاک فوج کے فوری انخلاء کاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ مطالبہ کسی غیر ملکی فوج کے لیے کررہے ہیں یا پھر اپنی ہی فوج کو مطعون کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاک فوج خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کی دعوت پر آئی ہوئی ہے، اس سے قبل بھی پاک فوج کی طرف سے باربار کہا گیا ہے کہ جب بھی صوبائی حکومت کہے گی فوج واپس چلی جائے گی۔ جہاں تک قبائلی اضلاع کاتعلق ہے تو ان علاقوں میں قیام امن کے لیے مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے بھی گراں قدر جانی قربانیاں دی ہیں۔ اس کے علاوہ پاک فوج کی طرف سے علاقے میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سکول اور کالجز کے ساتھ ساتھ کیڈٹ کالجز بہترین اور سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال اور سب سے بڑھ کر بہترین سڑکیں گذشتہ سالوں میں پاک فوج کی طرف سے تعمیر کی گئی ہیں۔ وانا جیسے دورافتادہ مقام پر اپنی مثال آپ فروٹ اور سبزی منڈی اور جدید ترین کولڈ سٹوریج کی تعمیر کے اس کے علاوہ ہیں۔یہ تمام چیزیں ہم جیسے صحافیوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہیں، سو ایسے میں یہ مطالبہ کرنا کہ پاک فوج علاقہ خالی کریں، انتہائی تشویشناک امرہے۔ آج اگر اس معاملہ پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو کل کو اس سے بھی خطرناک مطالبات سامنے آسکتے ہیں۔ جہاں تک پاک فوج کاتعلق ہے تو وہ تو ایک طرح سے پورے ملک میں موجود ہے۔ کل کو کسی بھی شہر کی کوئی تنظیم یہ مطالبہ کرسکتی ہے تو کیا فوج کو ملک سے نکال دیں گے؟ کیا پورے ملک میں چھاؤنیاں نہیں؟ کیا فوج کو وہاں سے بھی نکالیں گے؟ آپ زیادہ سے زیادہ یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ فوج کو چھاؤنیوں تک محدود کیاجائے، یا پھر چیک پوسٹوں پر بات کی جاسکتی ہے، مگر یہ کہنا کہ فوج علاقہ سے نکل جائے ایک انتہائی احمقانہ مطالبہ ہے اور اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے کہ کیا وہ بھی پی ٹی ایم کے اس مطالبہ سے متفق ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کو وضاحت ضرور کرنی چاہیے۔
دوسری طرف پی ٹی ایم کی طرف سے سرحدوں کو کھلی رکھنے کامطالبہ بھی انتہائی خطرناک اور ناقابل عمل ہے۔ پاک افغان سرحد عشروں تک غیرمحفوظ رہی ہے، روزانہ کی بنیاد پر تیس سے پچاس ہزار افراد صرف طورخم بارڈر سے بغیر قانونی دستاویزات کے آمد ورفت کیا کرتے تھے جس پر متعدد مواقع پر عدالت عالیہ پشاور اور عدالت عظمیٰ تک کی طرف سے سخت ریمارکس سامنے آتے رہے ہیں۔ اس کھلی آمد ورفت نے ملک کی معیشت اور معاشرت دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ساتھ میں دہشتگرد بھی بھیس بدل کر باآسانی آتے رہے اور یہ زمین آگ اور خون میں نہلاتے رہے۔ بعداز خرابی بسیار سرحدوں کو محفو ظ بنانے کے لیے با رڈر منیجمنٹ کا فیصلہ کیا گیا جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے اس فیصلے کا تمام سیاسی جماعتوں نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ سرحدوں کو اب مسلسل کھلا نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ بارڈر منیجمٹ کے بعد سے صور تحال کافی بہتر ہوتی چلی گئی مگر اب پھر سے سرحدوں کو کھلا رکھنے کے مطالبات کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔
پی ٹی ایم اور اس کے حامیوں سے سوال ہے کہ کیا افغانستان کے ساتھ ایران، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کی سرحدات بھی اسی طرح کھلی رہی ہیں؟ حالانکہ ان علاقوں میں بھی تو بارڈر کے آرپار ایک ہی قوم آباد چلی آرہی ہے، اگر نہیں تو صرف پاکستان سے سرحدیں کھلی رکھنے کامطالبہ کیوں کیا جارہا ہے؟
اس حوالہ اگلے مضمون میں تفصیل سے افغانستان کے دیگر ممالک کے ساتھ سرحدی صورت اور معاملات کاجائزہ لیا جائے گا۔ یہ امر طے ہے کہ یہ دونوں مطالبات نہ صرف خطرناک بلکہ ناقابل عمل ہیں اور اس سلسلہ میں تمام جماعتوں کو سنجیدگی کامظاہرہ کرنا ہوگا بصورت دیگر قوم ان سب سے جواب طلبی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔