اتوار کی صبح ایران پر ہونے والے امریکی حملے نے جہاں اسرائیل کے لیے مزید مسائل پیدا کئے ہیں اور مڈل ایسٹ کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے وہاں امریکہ پر نہ صرف یہ کہ دنیا بھر سے شدید تنقید ہورہی ہے بلکہ امریکی کانگریس کے درجنوں ارکان نے اس اقدام کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی ایسے حملے سے قبل کانگریس کو اعتماد میں لینا لازمی ہوتا ہے مگر ٹرمپ اور ان کی کیبنٹ نے یہ تقاضا پورا کیے بغیر خود کو ایک ” نہ ختم ہونے والی جنگ” میں دھکیل دیا ہے ۔ درجنوں ارکان کانگریس نے اپنے بیانات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی مہم بھی چلائی اور موقف اختیار کیا کہ کسی اور کی لڑائی میں امریکہ کو بلاضرورت ملوث کیا گیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع نے اتوار کی شام کو جو تفصیلات شیئر کیں ان کے مطابق ایران کے 3 نیوکلیئر سائٹس پر جدید میزائلز کے علاؤہ 150 کے لگ بھگ لڑاکا طیاروں کے ذریعے حملے کئے گئے ۔ ان طیاروں میں 7 بی ٹو طیارے بھی شامل تھے جن کی دو تین بار دوسرے طیاروں کے ذریعے ہوا میں ری فیولنگ بھی کی گئی ۔ وزارت دفاع کے مطابق یہ ناین الیون کے بعد اس لیول پر امریکہ کا سب سے بڑا فضائی آپریشن تھا جس کے لیے مختلف وسائل اور طریقے استعمال کیے گئے ۔
ایران نے اس جارحیت کو باقاعدہ جنگ کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ہر قیمت پر جواب دیا جائے گا اور یہ کہ اس کی ایٹمی تنصیبات نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ جوہری پروگرام کو جاری بھی رکھا جائے گا ۔
ایران نے ایک انتہائی اقدام کے طور پر دنیا کو تیل اور گیس کی سپلائی کی اہم ترین سمندری گذرگاہ ” آبنائے ہرمز” کو بند کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے جو کہ دنیا کے مختلف ممالک کو تقریباً 50 فی صد گیس اور تیل سپلائی کرنے والا وہ اہم گزرگاہ ہے جو کہ ایران کی تحویل میں ہے ۔ اس سپلائی لائن کو بند کرنے کی ایرانی پارلیمنٹ نے باقاعدہ منظوری بھی دی ۔ اس اقدام کو امریکہ نے ” جارحیت” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو ایسا کرنے نہیں دیا جائے گا ۔ اسی تناظر میں سلامتی کونسل کے ایک اہم اجلاس میں عالمی امن کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا گیا ۔ اس اجلاس کے انعقاد میں پاکستان ، روس اور چین نے بنیادی کردار ادا کیا ۔ یہاں بھی مجموعی ماحول امریکی حملے کی مخالفت میں دکھائی دی اور برطانیہ جیسے ملک نے بھی یہاں تک کہا کہ اگر حملوں کا نشانہ بننے والے ایرانی سائٹس یا علاقوں میں جوہری تابکاری کے اثرات نہیں ملے تو پھر کیا ہوگا ؟
اگر چہ امریکہ نے یہ کہہ کر اپنا تمسخر اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اس نے ایران پر نہیں بلکہ اس کے ایٹمی پروگرام پر حملے کیے ہیں اس کے باوجود اقوام متحدہ ، او آئی سی ، یورپی یونین اور متعدد دیگر عالمی فورمز نے تیسری عالمی جنگ کے آغاز کے خدشات ظاہر کیے اور اسرائیل کے بغیر کسی ایک بھی اہم ملک نے اس امریکی اقدام کی تعریف یا ستائش نہیں کی ۔ یہاں تک کہ امریکی میڈیا نے بھی اتنے بڑے آپریشن کو بلاضرورت مگر تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اس پر شدید نوعیت کے خدشات ظاہر کیے ۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار نے بلائے گئے ہنگامی اجلاس کے دوران کھل کر اس حملے کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان ایران کے حق دفاع کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتا ہے امن کی کوششوں اور اپیلوں کو نظر انداز کیا گیا ۔
اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں ہر ملک میں ہر طبقے اور ہر فورم پر یہ سوال مشترکہ طور پر اٹھایا جاتا رہا کہ کیا دنیا تیسری جنگ عظیم کے دھانے پر کھڑی ہے ؟
اگر چہ تاحال اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے تاہم اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر خدا نخواستہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوگئی تو اس کی زیادہ تر ذمہ داری ایران کی بجائے
اسرائیل اور امریکہ پر عائد ہوگی کیونکہ 13 جون کے حملے کی ابتداء اسرائیل نے کی تھی اور رہی سہی کسر امریکہ کے 22 جون کے حملے نے پوری کردی ۔
(جون 23، 2025)